حوزہ نیوز ایجنسی | تاریخِ اسلام کے اہم و حساس مباحث میں سے ایک، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی تشییع اور تدفین کا مسئلہ ہے۔ مؤرخین اور محققین اس بات پر متفق ہیں کہ آپ سلام اللہ علیہا نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں وصیت فرمائی تھی کہ ان کی نماز جنازہ رات کی تاریکی میں اور خفیہ طور پر ادا کی جائے تاکہ حکومتِ وقت کو اس میں شرکت کا موقع نہ ملے۔
ایران میں دینی سوالات کے جواب دینے والے مرکز نے اپنی کتاب "مالک فدک" میں اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ طلحہ کے جنازے میں موجود ہونے کا کوئی معتبر تاریخی ثبوت نہیں ملتا، جبکہ زبیر کے بارے میں بھی روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض کتب میں صرف نمازِ جنازہ میں شرکت کا ذکر ہے، نہ کہ تدفین میں۔
تحقیقی تجزیے کے مطابق، اگر زبیر واقعی موجود بھی تھے، تو ان کے لیے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے مزار کی نشاندہی کرنے کا کوئی فائدہ نہ تھا، کیونکہ یہ عمل ان کے سیاسی مفاد کے خلاف اور ان کی سماجی حیثیت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا۔ اس سے عوام میں یہ تاثر پیدا ہوسکتا تھا کہ وہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی بیٹی کی حرمت کا خیال نہیں رکھتے۔
عرب معاشرے میں خواتین و معزز شخصیات کے بارے میں بے حرمتی کے اعمال کو سخت ناپسند کیا جاتا تھا، اور ایسے اقدام کو قبائلی ننگ و عار سمجھا جاتا۔ لہٰذا زبیر یا ان کے ہم خیالوں کی جانب سے قبرِ مطہر کو ظاہر کرنے کی جرات نہ کی گئی۔
علاوہ ازیں، امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام اس وقت خلیفہ و حاکمِ مدینہ تھے، اور اگر کوئی اس راز کو ظاہر کرنے کی کوشش بھی کرتا تو امام کی موجودگی میں اسے اس کی اجازت نہ ملتی۔
نتیجتاً تاریخی شواہد سے واضح ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے مزارِ مطہر کا پوشیدہ ہونا آپ کی وصیت کے مطابق تھا، اور اس راز کو فاش نہ کرنے میں سماجی، سیاسی اور اخلاقی عوامل بھی کارفرما تھے۔
مآخذ:
ابن بابویہ، الامالی، ص ۶۵۸؛ علل الشرایع، ج۱، ص۱۸۵
ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالبؑ، ج۳، ص۳۶۳
علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج۴۳، ص۱۸۳
طبرسی، اعلام الوری









آپ کا تبصرہ